Dec 9, 2017

کوئی مجھ کو مرا بھر پور سراپا لا دے

کوئی مجھ کو مرا بھر پور سراپا لا دے
مرے بازو ، مری آنکھیں، مرا چہرہ لا دے
ایسا دریا جو کسی اور سمندر میں گرے
اس سے بہتر ہے کہ مجھ کو مرا صحرا لا دے
کچھ نہیں چاہئے تجھ سے اے مری عمرِ رواں
مرا بچپن، مرے جگنو، مری گڑیا لا دے
جس کی آنکھیں مجھے اندر سے بھی پڑھ سکتی ہوں
کوئی چہرہ تو مرے شہر میں ایسا لا دے
کشتئ جاں تو بھنور میں ہے کئی برسوں سے
اے خدا اب تو ڈبو دے یا کنارا لا دے
نوشی گیلانی

Dec 8, 2017

ان موسموں میں ناچتے گاتے رہیں گے ہم

ان موسموں میں ناچتے گاتے رہیں گے ہم
ہنستے رہیں گے شور مچاتے رہیں گے ہم
لب سوکھ کیوں نہ جائیں گلا بیٹھ کیوں نہ جائے
دل میں ہیں جو سوال اٹھاتے رہیں گے ہم
اپنی رہِ سلوک میں چپ رہنا منع ہے
چپ رہ گئے تو جان سے جاتے رہیں گے ہم
نکلے تو اس طرح کہ دکھائی نہیں دیے
ڈوبے تو دیر تک نظر آتے رہیں گے ہم
دکھ کے سفر پہ دل کو روانہ تو کردیا
اب ساری عمر ہاتھ ہلاتے رہیں گے ہم

(احمد مشتاقؔ)

Dec 6, 2017

سچ کو ایسا کیا گیا جھوٹا

سچ کٹھن امتحان لگتا ہے
جھوٹ اب مہربان لگتا ہے
سچ کو ایسا کیا گیا جھوٹا
جھوٹ سچا بیان لگتا ہے
سچ مسافر ہے کوئی بھٹکا ہوا
جھوٹ اک کاروان لگتا ہے
سچ تو کمتر ہوا , ہوا چھوٹا
جھوٹ اونچی دکان لگتا ہے
سچ ہے باندی غلام گردش کی
جھوٹ شاہوں کی شان لگتا ہے
سچ ہے فٹ پاتھ کا کوئی باسی 
جھوٹ محفل کی جان لگتا ہے
سچ فقیروں کا آستانہ ہے
جھوٹ اپنا مکان لگتا ہے
سچ ہے گالم گلوچ شرفا کی
جھوٹ اہلِ زبان لگتا ہے
سچ کہ لاغر سا ایک بڈھا ہے
جھوٹ ہر دم جوان لگتا ہے
سچ رعایا کی گفتگو جیسا
جھوٹ خود حکمران لگتا ہے
سچ یہی ہے کہ آج کل ابرک
جھوٹ سارا جہان لگتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اتباف ابرک

ہم میسر ہیں سہارا کیجے

ہم میسر ہیں سہارا کیجے
جب بھرے دل تو کنارا کیجے
آپ پہ طے ہے بہار آنی ہے
دو گھڑی ہم پہ گزارا کیجے
ہم بھی آنسو ہیں چھلک جائیں گے
بس ذرا دیر گوارا کیجے
روئیے کھول کے دل اچھا ہے
کاہے یہ فرض ادھارا کٰیجے
آئینہ ہم کو سمجھ لیجے کبھی
اور پھر خود کو سنوارا کیجے
کچھ تعلق کا گماں ہوتا ہے
یونہی بے وجہ پکارا کیجے
خواب میں کر کے گزر پھر اپنا
کچھ تو امید ابھارا کیجے
جب کوئی صبح نئی مل جائے
ہم کو بھی ڈوبا ستارا کیجے
جائیے آپ اجازت ہے مری
اب کوئی اور بے چارا کیجے
یہ جو سامان میں دو آنسو ہیں
ان پہ بس نام ہمارا کیجے
دل جو پھر چاہے کوئی توڑنا دل 
ہم پہ ہی کرم دوبارہ کیجے
جو فراموش ہوے ہو ابرک
آپ بھی عقل خدارا کیجے
ایک سے ایک حسیں ملتے ہیں
منتظر ہیں کہ اشارا کیجے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اتباف ابرک

میں خود پرست ہوگیا ہوں۔

تُم اپنے لب کاٹ کاٹ کر
ہر لفظ کو بے عنوان کر دیتی ہو
میں بھی احساس کی لَو کو
ہنسی کی ہوا سے بُجھا دیتا ہوں
تُم چاہتی ہو تجدیدِ محبت میں کروں
میں چاہتا ہوں کہ تُم مجھے حیرت میں ڈالو
وہ ایک بات جو ہمیں کہنی ہے
مگر ہم کہہ نہیں پاتے کہ ۔۔۔۔
جانے کس منزل پر آکر ہم کھڑے ہیں
جہاں تُم اَنا پرست بن گئے ہو
اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں خود پرست ہوگیا ہوں۔

بہت تکلیف دیتا ہے کسی کو الوداع کہنا

بہت تکلیف دیتا ہے کسی کو الوداع کہنا
دکھائی کچھ نہیں دیتا سنائی کچھ نہیں دیتا
فقط کچھ کپکپاتے لفظ جو ہونٹوں پر ٹھہر جائیں
ابھرتی ڈوبتی دھڑکن اسے آواز دیتی ہے
کوئی اپنا کے جس کا نام اپنے دل پے لکھا ہو
کے جس کے واسطے دل سے دعائیں ہی نکلتی ہوں
بہت تکلیف دیتا ہے اسی کو الوداع کہنا
جسے دل میں بسایا ہو بیری ہی مان سے
جسکو کبھی اپنا بنایا ہو بہت تکلیف ہوتی ہے
بہت تکلیف دیتا ہے اسی کو الوداع کہنا . . .

بہت تکلیف دیتا ہے اسی کو الوداع کہنا .

Dec 5, 2017

نہ تصاویر ، نہ تزئین سے بن سکتی تھی

نہ تصاویر ، نہ تزئین سے بن سکتی تھی
یہ غزل اچھی ، مضامین سے بن سکتی تھی
سات کے سات بھرے رنگ تری آنکھوں میں
ورنہ تصویر تو دو تین سے بن سکتی تھی
تم نے مانگی ہی نہیں ساتھ دعائیں میرے
بات بگڑی ہوئی آمین سے بن سکتی تھی..
تم نے بدلا ہے جو منظر کو بہت عجلت میں
یہ کہانی تو اسی سین سے بن سکتی تھی
دشمنا ! تیری عداوت سے مھے فرق نہیں
پر لڑائی مری توہین سے بن سکتی تھی
مذہب - عشق میں رتبے نہیں دیکھے جاتے
ہم فقیروں کی اسی دین سے بن سکتی تھی
چار دیواری اٹھانے کو تھی ہمت درکار........
چھت کا کیا ہے وہ کسی ٹین سے بن سکتی تھی