عشق تو لاٹری ھے بچوں کی
کِس نے جیتی ھے یہ سیاست سے
بِن بُلائے یہ آن ٹپکے ھے
عشق ھوتا ھے کب اجازت سے ؟؟
دائیں بائیں مِرے خسارے ھیں
باز آیا نہ میں تجارت سے
اُس کے آنسو چُرا کے بھاگا ھُوں
اُس کو لُوٹا ھے پِھر محبت سے
اب نہ پھینکوں گا جھیل میں کنکر
باز آیا میں اِس شرارت سے
وہ بھی بندہ ھے تھوڑا من موجی
میں بھی رکھتا ھُوں بس ضرورت سے
وہ بھی مصروف ھے کہیں عابی !!
میں بھی فارغ نہیں فراغت سے
”عابی مکھنوی“