اسی سے التجا کرتا رہا
جو ستم کی انتہا کرتا رہا
حسن مجھکو مبتلا کرتا رہا
میں عشق کی ابتدا کرتا رہا
میری فطرت تھی وفا کرتا رہا
اور ستم وہ بیوفا کرتا رہا
یاد کر کر کے اسے روتا تھا یوں
درد_دل کا سلسلہ کرتا رہا
خواب تو بس خواب ہیں خوابوں کا کیا
دل کو قائل بارہا کرتا رہا
بیوفائی تجھ سے کر سکتا نہ تھا
سو زمانے کو خفا کرتا رہا
راس آتی ہی نہیں خوشیاں مجھے
غم سے دل کو آشنا کرتا رہا
جس کی فطرت میں وفا تھی ہی نہیں
میں بھی کس کو ناخدا کرتا رہا
سفر میں ہی بس زندگی رہ گئی
ہر کسی کو رہنما کرتا رہا
بےرخی کا کیوں گلہ اس کو بھلا
جو سلوک ناروا کرتا رہا
عذر کر کے شاعری کا ہی اسد
درد کو میں بے ریا کرتا رہا