Nov 30, 2017

یہ رقصِ شامِ غم ہے اور مَیں ہوں

یہ رقصِ شامِ غم ہے اور مَیں ہوں
محبت محترم ہے اور مَیں ہوں
پہاڑوں پر پرندے جاگتے ہیں
دعائے صُبحِ دم ہے اور مَیں ہوں
مِرے ہونٹوں پہ اِک حرفِ دعا ہے
تِری چشمِ کرم ہے اور مَیں ہوں
سَرساحل یہ بِکھری سیپیاں ہیں
ہَََوائے تازہ دَم ہے اور مَیں ہوں
کِسی کی یاد کے تنہا سفر میں
یہ میری چشمِ نم ہے اور مَیں ہوں
بدن پر بَین کرتی خامُشی ہے
تِری مشقِ ستم ہے اور مَیں ہوں
دِییے آنکھوں کے, بُجھتے جا رہے ہیں
کوئ شہرِ الم ہے اور مَیں ہوں

اِک نَظر کاسہءِ حیات میں رَکھ

اِک نَظر کاسہءِ حیات میں رَکھ
خُود کو جیت اور مُجھکو مات میں رکھ
رکھ کہ تُو بُھول جا مُجھے بیشک
اور سمجھ ٹُوٹا پُھوٹا سامان ہے
گھر کے اُجڑے ہُوۓ کونے میں کہیں
چاھے تو فالتُو کباڑ میں رکھ
تُو سجا آنگنوں میں اپنے پُھول
مُجھکو بیشک کہیں اُجا ڑ میں رکھ
رکھتے ہیں مان پھیلے دامن کا
چاک دامَن ہُوں یہ گَیان میں رکھ
ٹھوکروں تک کا سَنگ نظر میں رہے
مُجھکو بھی تھوڑا سادھیان میں رَکھ
میں اگَر جاؤُں مُخالف تیرے تو میں کافِر
میرا ہر اِک قدم تُو گھات میں رَکھ
ایک پل کو جو بِہکوں دائرہءِ مُحبَّت سے
خُود کو تُودے ثَبات اور مُجھے مَمات میں رَکھ

رات کا وقت ھے خاموشی ھے تنہائ ھے

رات کا وقت ھے خاموشی ھے تنہائ ھے
دل میں چٌپکے سے تیری یاد اٌمڈ آئ ھے
کہیں لگتا ہی نہیں لاکھ لگا کے دیکھا 
میرے مولا یہ میرا دل ھے کہ ہرجائ ھے 
اکھیوں سے چھلکیں تو تھمتے نہیں آنسو 
اب کے برسات نینوں میں اٌتر آئ ھے 
پھر آج اٌس کا ذکر کرتے کرتے 
دل بھر آیا ھے آواز لڑکھڑائ ھے 
ذندگی! تجھ سے کیا گٍلا کرنا 
میری قسمت میں بے وفائ ھے 

تاشفین فاروقی

رخصت ہوا تو بات میری مان کر گیا​

رخصت ہوا تو بات میری مان کر گیا​
جو اُس کے پاس تھا،وہ مجھے دان کر گیا​
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی​
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا​
دلچسپ واقعہ ہے کل اک عزیز دوست​
اپنے مفاد پر مجھے قربان کر گیا​
کتنی سدھر گئی ھے جدائی میں زندگی​
ہاں وہ جفا سے مجھ پر احسان کر گیا​
خالد میں بات بات پہ کہتا تھا جس کو جان​
وہ شخص آخرش مجھے بے جان کر گیا
Show More React

نیناں برسیں رِم جِھم رِم جِھم

نیناں برسیں رِم جِھم رِم جِھم
پیا تورے آون کی آسوہ دن میری نگاھوں م

وہ یادیں میری آھوں میںیہ دل اب تک بھٹکتا ھے
تیری اُلفت کی راھوں میںسوُنی سوُنی راھیں
سہمی سہمی بانہیںآنکھوں میں ھے برسوں کی پیاس۔
نیناں برسیں رِم جِھم رِم جِھم
نظر تُجھ بن مچلتی ھے
محبت ھاتھ ملتی ھے
چلا آ میرے پروانے
وفا کی شمع جلتی ھے
او میرے ھم راھی
پھرتی ھوں گبھرائی
جہاں بھی ھے ، آ جا میرے پاس
نیناں برسیں رِم جِھم رِم جِھم
ادھورا ھوں میں افسانہ
جو یاد آؤں چلے آنا
میرا جو حال ھے تجھ بن
وہ آ کر دیکھتے جانا
بھیگی بھیگی پلکیں
چھم چھم آنسو چھلکیں
کھوئی کھوئی آنکھیں ھیں اُداس
نیناں برسیں رِم جِھم رِم جِھم
یہ لاکھوں غم یہ تنہائی
محبت کی یہ رُسوائی
کٹی ایسی کئی راتیں
نہ تم آئے نہ موت آئی
یہ بندیا کا تارا
جیسے ھو انگارا
مہندی میرے ھاتھوں کی اُداس
نیناں برسیں رِم جِھم رِم جِھم
پیا تورے آون کی آس
نیناں برسیں ، رِم جِھم رِم جِھم
”راجہ مہدی علی خان“

Nov 29, 2017

اُس حُسن کے نام پہ یاد آئے

اُس حُسن کے نام پہ یاد آئے
سب منظر ”فیض“ کی نظموں کے
وھی رنگِ حنا ، وھی بندِ قبا 
وھی پھول کُِھلے پیراھن میں

کچھ وہ جنہیں ھم سے نسبت تھی 
ان کوچوں میں آن آباد ھُوئے
کچھ عرش پہ تارے کہلائے 
کچھ پُھول بنے جا گلشن میں

”اِبنِ انشاء“

تُو بھی اے شخص کیا کرے آخر

To be your friend
I became my own enemy!
تُو بھی اے شخص کیا کرے آخر
مجھ کو سر پھوڑنے کی عادت ہے !
جون ایلیا

عشق تو لاٹری ھے بچوں کی

عشق تو لاٹری ھے بچوں کی
کِس نے جیتی ھے یہ سیاست سے
بِن بُلائے یہ آن ٹپکے ھے
عشق ھوتا ھے کب اجازت سے ؟؟
دائیں بائیں مِرے خسارے ھیں
باز آیا نہ میں تجارت سے
اُس کے آنسو چُرا کے بھاگا ھُوں
اُس کو لُوٹا ھے پِھر محبت سے
اب نہ پھینکوں گا جھیل میں کنکر
باز آیا میں اِس شرارت سے
وہ بھی بندہ ھے تھوڑا من موجی
میں بھی رکھتا ھُوں بس ضرورت سے
وہ بھی مصروف ھے کہیں عابی !!
میں بھی فارغ نہیں فراغت سے
”عابی مکھنوی“

اِس کہانی میں اور کیا ھو گا

اُس کی یادوں کا سلسلہ ھو گا
اِس کہانی میں اور کیا ھو گا ؟؟
جو بچھڑ کر بھی وہ خاموش رھا
گھر پہنچ کر تو رو دیا ھو گا
خود کو سمجھا لیا ھے میں نے , مگر
کیا وہ خود بھی بدل گیا ھو گا ؟؟
اتنا آساں نہ تھا مجھے کھونا
اس نے خود کو گنوا دیا ھو گا
مجھ کو ویران کر دیا جس نے
کہیں آباد تو ھُوا ھو گا ؟؟
سوچتا ھُوں جو مجھ کو چاھتا تھا
یاد مجھ کو کر رھا ھو گا
”تاجدار عادل“

Nov 28, 2017

سنو ! ایسا نہیں کرتے

‏سفرتنہا نہیں کرتے
سنو ! ایسا نہیں کرتے
جسے شفاف رکھنا ہو
اسے میلا نہیں کرتے
تیری آنکھیں اجازت دیں
تو ہم کیا کیا نہیں کرتے
جو مل کے خود سے کھوجائے
اسے رُسوا نہیں کرتے ___
تیری آنکھوں کو پڑھتے ہیں
تجھے دیکھا نہیں کرتے
چلو تم راز ہو اپنا __
تجھے افشاہ نہیں کرتے !!

مسلئہ ختمِ نبّوت

*مسلئہ ختمِ نبّوت*
*دیہات میں چوری کی واردات کا ایک طریقہ، چور اپناتے ہیں ۔ وہ جس گھر کو ٹارگٹ کرتے ہیں تو آدھی رات کو اس گھر میں دو تین پتھر پھینکتے ہیں، اور ایسا دو تین راتیں کرتے ہیں، اگر گھر والوں کی طرف سے کچھ ری ایکشن ہو مثلا ً کوئی کہے کہ کون ہے باہر، یا یا لائٹ آن ہوجائے یا پھر کوئی چلتا پھرتا محسوس ہو تو چور اس گھر کا اردہ ملتوی کر دیتے ہیں۔*
*لیکن اس کے برعکس اگر ان چھوٹے چھوٹے پتھروں کے جواب میں کوئی رد عمل نہ ہو تو چور پوری تیاری کے ساتھ آ کر ڈاکہ ڈال کر چلے جاتے ہیں،*
*تو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ "ختم نبوت " کی شق ہٹانے، نہ ہٹانے، یا پھر معمولی الفاظ کی ردو بدل کو معمولی نہ سمجھیں، بلکہ یہ وہ پتھر ہیں جس سے چور آپ کی بیداری کا اندازہ لگا رہا ہے*
*اس لیے ختم نبوت پر کوئی مصالحت برداشت نہ کی جائے۔
*ناموس رسالت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر میری جان بھی قربان. میں حلفیہ قسم کھاکر کہتا ہوں کہ میں قادیانی جھوٹے نبی مرزا غلام احمد قادیانی پر لعنت بھیجتا ہو۔اگر آپ بھی حلفیہ اقرار کرتے ہیں تو اس پوسٹ کو اپنے دوستوں کو شیئر کیجیے*
*غلامی رسول ؐ میں موت بھی قبول ہے*
*نہ ہو جو عشق مصطفیٰ ؐ تو زندگی فضول ہے۔*
*اَلَّهُمَّ صَلِّ عَلَى ُمحَمَّدِ ُّوعَلَى اَلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى اِبْرَاهِيْمَ وَعَلَى اَلِ ابْرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيْدُ مَجِيِداَلَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمّدِ ٌوعَلَى اَلِ مُحَمّدٍ كَمَابَارَكْتَ عَلَى اِبْرَاهِيْمَ وَعَلَى اَلِ اِبْرَاهِيْمَم اِنَّكَ حَمِيُد مَّجِيد ۔*

کوئی " رفو گری " کرے گا میری

کوئی " رفو گری " کرے گا میری 
بھروسہ کھا گیا ھے جگہ جگہ سے



یہ دور وہ ہے کہ بیٹھے رہو چراغ تلے

یہ دور وہ ہے کہ بیٹھے رہو چراغ تلے 
سبھی کو بزم میں دیکھو مگر دکھائی نہ دو 

خورشید رضوی..

ہمارے بعد بھی تم قہقہے لگاتے ہو

ہمارے بعد بھی تم قہقہے لگاتے ہو 
تمہارے بعد تو ہم بات بھی نہیں کرتے 

اُس کی آنکھوں کو غور سے دیکھو

اُس کی آنکھوں کو غور سے دیکھو 
مندروں میں چراغ جلتے ہیں 

بشیر بدّر

ہمیں تیری محبت مل گئ ہے

ہمیں تیری محبت مل گئ ہے ہمارے ہاتھ میں سارا جہاں ہے

سلیقے سے رد کیجئے

سلیقے سے رد کیجئے 
چاھے بے حد کیجئے

ﻭﮦ ﻟﻤﺤﮯ ﮐﺘﻨﮯ ﺩﺭﻭﻍ ﮔﻮ ﺗﮭﮯ

ﻭﮦ ﻟﻤﺤﮯ ﮐﺘﻨﮯ ﺩﺭﻭﻍ ﮔﻮ ﺗﮭﮯ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﭘﻮﺭﻭﮞ ﮐﺎ ﻟﻤﺲ ﺍﺏ ﺗﮏ
ﻣﺮﯼ ﮐﻒِ ﺩﺳﺖ ﭘﺮ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ
ﻭﮦ ﻟﻤﺤﮯ ﮐﺘﻨﮯ ﺩﺭﻭﻍ ﮔﻮ ﺗﮭﮯ
ﻭﮦ ﮐﮩﮧ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ
ﮐﮧ ﺍﺏ ﮐﮯ ﺟﻮ ﮨﺎﺗﮫ ﺗﯿﺮﮮ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﭼﮭﻮ
ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﺗﻤﺎﻡ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﺳﮯ
ﻣﻌﺘﺒﺮ ﮨﯿﮟ
ﻭﮦ ﮐﮩﮧ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﭘﻮﺭﯾﮟ ﺟﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮐﻮ
ﭼﮭﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ
ﻭﮨﯽ ﺗﻮ ﻗﺴﻤﺖ ﺗﺮﺍﺵ ﮨﯿﮟ
ﺗﻮ ﺍﺏ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﻮ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﺖ ﻟﮕﺎﻧﺎ
ﻣﯿﮟ ﺍُﺱ ﺳﻤﮯ ﺳﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ
ﺗﻤﺎﻡ ﻧﺎ ﻣﮩﺮﺑﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﻣﮩﺮﺑﺎﻥ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ
ﺩﺳﺖ ﮐﺶ ﯾﻮﮞ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﺟﯿﺴﮯ
ﯾﮧ ﻣﭩﮭﯿﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮭﻮﻝ ﺩﯾﮟ ﺗﻮ
ﻭﮦ ﺳﺎﺭﯼ ﺳﭽﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﻮﺗﯽ
ﻣﺴﺮﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺟﮕﻨﻮ
ﺟﻮ ﺑﮯ ﯾﻘﯿﻨﯽ ﮐﮯ ﺟﻨﮕﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﯽ ﻟﮑﯿﺮ ﮐﺎ ﻗﺎﻓﻠﮧ ﺑﻨﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﯿﺮﮮ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺭﻭﭨﮫ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ
ﻣﯿﮟ ﺿﺒﻂ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺣﺼﺎﺭ ﻣﯿﮟ
ﻣﺪﺗﻮﮞ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ
ﻣﮕﺮ ﺟﺐ ﺍﮎ ﺷﺎﻡ
ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﭘﺖ ﺟﮭﮍ ﮐﯽ ﺁﺧﺮﯼ ﺷﺎﻡ ﺗﮭﯽ
ﮨﻮﺍ ﺍﭘﻨﺎ ﺁﺧﺮﯼ ﮔﯿﺖ ﮔﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ
ﻣﺮﮮ ﺑﺪﻥ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﺍ ﻟﮩﻮ ﺧﺸﮏ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ
ﺗﻮ ﻣﭩﮭﯿﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮭﻮﻝ ﺩﯾﮟ
ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ
ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﮐﻮﺋﯽ ﺟﮕﻨﻮ
ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﻮﺗﯽ
ﮨﺘﮭﯿﻠﯿﻮﮞ ﭘﺮ ﻓﻘﻂ ﻣﺮﯼ ﻧﺎﻣﺮﺍﺩ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ
ﺩﮬﺮﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ
ﻗﺴﻤﺖ ﮐﯽ ﺳﺐ ﻟﮑﯿﺮﯾﮟ ﻣﭩﯽ ﮨﻮﺋﯽ
ﺗﮭﯿﮟ۔

مگر یہ دل کہ بضد ہے، “نہیں نہیں کوئی ہے“

یہی بہت ہے کہ محفل میں ہم نشِیں کوئی ہے،
کہ شب ڈھلے تو سحر تک کوئی نہیں کوئی ہے،
نہ کوئی چاپ، نہ سایہ کوئی، نہ سرگوشی،
مگر یہ دل کہ بضد ہے، “نہیں نہیں کوئی ہے“
یہ ہم کہ راندۂ افلاک تھے، کہاں جاتے؟
یہی بہت ہے کہ پاؤں تلے زمِیں کوئی ہے،
ہر اِک زبان پہ اپنے لہُو کے ذائقے ہیں،
نہ کوئی زہرِ ہلاہل، نہ انگبِیں کوئی ہے،
بھلا لگا ہے ہمیں عاشقوں کا پہناوا،
نہ کوئی جیب سلامت، نہ آستِیں کوئی ہے،
دیارِ دل کا مسافر کہاں سے آیا ہے؟
خبر نہیں مگر اِک شخص بہترِیں کوئی ہے،
یہ ہست و بود، یہ بود و نبود، وہم ہے سب،
جہاں جہاں بھی کوئی تھا، وہیں وہیں کوئی ہے،
فرازؔ اتنی بھی ویراں نہیں میری دُنیا،
خزاں میں بھی گُل خنداں کہیں کہیں کوئی ہے،

(احمد فرازؔ)

نہ کوئی چاپ، نہ سایہ کوئی، نہ سرگوشی​


نہ کوئی چاپ، نہ سایہ کوئی، نہ سرگوشی​
مگر یہ دل کہ بضد ہے، “نہیں نہیں کوئی ہے“​
احمد فراز

Nov 27, 2017

ﺍﺭﺍﺩﮦ ﺭﻭﺯ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ،ﻣﮕﺮ ﮐﭽﮫ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ

ﺍﺭﺍﺩﮦ ﺭﻭﺯ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ،ﻣﮕﺮ ﮐﭽﮫ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ
ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺸﮧ ﻭﺭ ﻓﺮﯾﺒﯽ ﮨﻮﮞ ، ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ
ﺑُﺮﮮ ﮨﻮ ﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﭼﮭﮯ ﮨﻮ ،ﻣﺠﮭﮯ ﺍِﺱ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻄﻠﺏ
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻄﻠﺐ ﺳﮯ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ ،ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻟﮍ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ
ﯾﮩﺎﮞ ﮨﺮ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﺍﻧﺴﺎﮞ ﺧُﺪﺍ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﮨﮯ
ﺧُﺪﺍ ﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﮐﮧ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﮨﯽﺟﮭﻮﻟﯽ ﺑﮭﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ .
ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺻﺎﻑ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﻮﮞﻣﺠﮭﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺍُﻟﻔﺖ
ﻓﻘﻂ ﻟﻔﻈﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﭘﮧ ﻣﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ
ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﻣﺴﺎﻓﺖ ﻧﮯ ﺑﮩﺖ ﺯﺧﻤﯽ ﮐﯿﺎ ﻣﺠﮫﮐ۰
ﺍﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﺯﺧﻢ ﺑﮭﺮﻧﮯ ﮨﯿﮟ،ﻣﯿﮟ ﺁﮨﯿﮟ ﺑﮭﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ
ﺑﮭﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﺎﮨﺎ، ﻣﮕﺮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺗﻮ ﭼﺎﮨﺎ ﮨﮯ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﯾﺎﺩ ﮐﻮ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺗﻮ ﺑﺎﮨﺮ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ
ﻧﺠﺎﻧﮯ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﺁﺩﻣﯽﺳﮯ ﺧﻮﻑ ﮐﮭﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﺟﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﺳﮯ ﮈﺭﺗﺎ ﮨﻮ ﮐﺴﯽﺳﮯ ﮈﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ
ﺍﺭﮮ ﺍﻭ ﻋﺸﻖ ! ﭼﻞ ﺟﺎ ﮐﺎﻡ ﮐﺮ ﮐﺲ ﮐﻮ ﺑﻼﺗﺎ ﮨﮯ
ﺣُﺴﻦ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﺑِﮑﺘﺎ ﮨﮯﺳُﻮﻟﯽ ﭼﮍ ﮪ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ
ﯾﮩﺎﮞ ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﺍﻟﮓ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﻟﮑﮭﯽ ﮨﮯ
ﻣﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﺴﻮ ﮨﯿﮟ۰۰۰ﺍﺑﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﭘﮍﮪ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ
ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺭﺍﺕ ﮐﯽ ﺯُﻟﻔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﭼﺎﻧﺪﯼ ﺳﺠﺎﺗﺎﮨﻭﮞ
ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﮓ ﻣﯿﮟﻭﻋﺪﻭﮞ ﮐﮯ ﮨﯿﺮﮮ ﺟﮍ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ
ﺑﮭﻠﮯ ﺟﮭﻮﭨﺎ، ﻣﻨﺎﻓﻖ ﮨﻮﮞ،ﺑﮩﺖ ﺩﮬﻮﮐﮯ ﺩﯾﮯ ﻟﯿﮑﻦ
ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﺻﺪﺍ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ،ﻣﯿﮟ ﺩﮬﻮﮐﮧ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ
ﻣﯿﮟ ﺍُﺱ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﻣﻘﯿﻤﯽ ﮨﻮﮞﺟﺴﮯ ﺍﻭﻗﺎﺕ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽﺣﺪ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞﺳﻮ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮪ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ
ﺍﺑﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﺷﻌﺮ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟﻣﮕﺮ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﺮ ﮔﺰ
ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﻻﺝ ﺭﮐﮭﻨﯽ ﮨﮯ، ﺳﻮ ﻇﺎﮨﺮ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ !
جون ایلیا۔

سُنا ہے عشقِ کامل کا نقش

سُنا ہے عشقِ کامل کا
نقش گہرا ہوتا ہے
سنا ہے احساس کی چلمن پر
سخت پہرا ہوتا ہے
سنا ہے دل کی بستی میں
بس اک موسم ٹھرا ہوتا ہے
سنا ہے رات کے جگنو بھی
تارے دکھائی دیتے ہیں
سنا ہے دل کو لگ جاتا ہے قفس
بس اک شخص کا پہرا ہوتا ہے
سنا ہے عشقِ کامل کا
نقش گہرا ہوتا ہے
سنا ہے لوگ اس میں غم بھی سنبھل لیتے ہیں
سنا ہے تڑپ کر بھی اسی کا نام لیتے ہیں
سنا ہے بے خود ان کو مے کر نہیں پاتی
سنا ہے عشق کا در جو دل تھام لیتے ہیں
سنا ہے جو ہستی کردے فنا عشق میں
سنا ہے بندگی کا سر اسی کے سہرا ہوتا ہے
سنا ہے ڈوبنے والوں کا اس میں
رنگ سُنہرا ہوتا ہے
سنا ہے لاکھ چہروں میں بھی
مطلوب اِک چہرا ہوتا ہے
سنا ہے عشق کامل کا
نقش گہرا ہوتا ہے..

جب کبھی تیرا نام لیتے ہیں

جب کبھی تیرا نام لیتے ہیں 
دل سے ہم انتقام لیتے ہیں 
میری بربادیوں کے افسانے 
میرے یاروں کا نام لیتے ہیں 
بس یہی ایک جرم ہے اپنا 
ہم محبت سے کام لیتے ہیں 
ہر قدم پر گرے ہیں پر سیکھا 
کیسے گرتوں کو تھام لیتے ہیں 
ہم بھٹک کر جنوں کی راہوں میں 
عقل سے انتقام لیتے ہیں 

Nov 26, 2017

خواب ادھورے رہ جانے

خواب ادھورے رہ جانے سے آنکھیں بوڑھی ہو جاتی ہیں

بدن سے روح کا رشتہ بحال کرتے ہو


بدن سے روح کا رشتہ بحال کرتے ہو 
کمال کرتے ہو !!!
لبوں سے چوم کے پتھر کو لعل کرتے ہو 
کمال کرتے ہو !!! 
سنا ہے صوت کے ساحر ہو اور آنکھوں میں بلا کا جادو ہے
نظر کے تیر سے دشمن نڈھال کرتے ہو
کمال کرتے ہو !!!
تمہی نے چاک پہ رکھا بنا کے پھر توڑا
تمہیں ہے غم کیسا ؟؟
مجھے ہی چھین کر مجھ سے ملال کرتے ہوے
کمال کرتے ہو !!!
چلو اب مان بھی جاؤ کہ درمیاں اپنے
کوئی تو رشتہ ہے
ذرا سی بات بھی کہنے میں سال کرتے ہو
کمال کرتے ہو !!!
جلا کے راکھ نہ کر دے تمہارے پیکر کو
سنبھال کر چلنا
سُلگتی آگ کو گلشن خیال کرتے ہو
کمال کرتے ہو !!!
تمہیں آساں ہے شائد فراق لمحوں کا زبان پر لانا
بڑے آرام سے مشکل سوال کرتے ہو
کمال کرتے ہو !!!
تمہیں تو پیار کا حق ہے، اگرسمجھتے ہو تو پھر یہ ڈر کیسا
کرو تم یار جو بہتر خیال کرتے ہو
کمال کرتے ہو !!!
عاطف جاوید عاطف

‏اکــــــ بار پهر ســے رنگــ اُڑیں گــے رقیبوں کـے

‏اکــــــ بار پهر ســے رنگــ اُڑیں گــے رقیبوں کـے
ہم لوٹ آئــْے ہیــں ______ محــفل میــں دوبارہ 

Nov 25, 2017

سجنا جے توں ہاسے دتے

سجنا جے توں ہاسے دتے
دکھ وی اچھے خاصے دتے. !!

وقت چپ چاپ ہماری قبر کھود رہا ہے..

وقت چپ چاپ ہماری
قبر کھود رہا ہے..

چلو مسکرانے کی وجہ ڈھونڈتے ھیں

چلو مسکرانے کی وجہ ڈھونڈتے ھیں...!!
تم ہمیں ڈھونڈو ھم تمہیں ڈھونڈتے ہیں 




دھڑکنیں ______ میرے ساتھ آئیں گی ۔۔۔۔

دھڑکنیں ______ میرے ساتھ آئیں گی
مجھے دل ____ سے نکال کر تو دیکھو_


اسی سے التجا کرتا رہا

اسی سے التجا کرتا رہا 
جو ستم کی انتہا کرتا رہا
حسن مجھکو مبتلا کرتا رہا 
میں عشق کی ابتدا کرتا رہا

میری فطرت تھی وفا کرتا رہا 
اور ستم وہ بیوفا کرتا رہا
یاد کر کر کے اسے روتا تھا یوں 
درد_دل کا سلسلہ کرتا رہا
خواب تو بس خواب ہیں خوابوں کا کیا 
دل کو قائل بارہا کرتا رہا
بیوفائی تجھ سے کر سکتا نہ تھا 
سو زمانے کو خفا کرتا رہا
راس آتی ہی نہیں خوشیاں مجھے 
غم سے دل کو آشنا کرتا رہا
جس کی فطرت میں وفا تھی ہی نہیں 
میں بھی کس کو ناخدا کرتا رہا
سفر میں ہی بس زندگی رہ گئی 
ہر کسی کو رہنما کرتا رہا
بےرخی کا کیوں گلہ اس کو بھلا 
جو سلوک ناروا کرتا رہا
عذر کر کے شاعری کا ہی اسد 
درد کو میں بے ریا کرتا رہا

Nov 24, 2017

اگر یہ کہہ دو

اگر یہ کہہ دو 
بغیر میرے نہیں گزارا ،

تو میں تمہارا...

یا اس پہ مبنی 
کوئی تاثر کوئی اشارہ ، 
تو میں تمہارا...
غرور پرور ، انا کا مالک 
کچھ اس طرح کے ہیں نام میرے ،
مگر قسم سے 
جو تم نے اک نام بھی پکارا ،
تو میں تمہارا...
تم اپنی شرطوں پہ کھیل کھیلو ،
میں جیسے چاہوں لگاؤں بازی ،
اگر میں جیتا تو تم ہو میرے ،
اگر میں ہارا ،
تو میں تمہارا...
تمہارا عاشق ، تمہارا مخلص 
تمہارا ساتھی ، تمہارا اپنا
رہا نہ ان میں سے وئی دنیا میں ، 
جب تمہارا ،
تو میں تمہارا...
تمہارا ہونے کے فیصلے کو ، 
میں اپنی قسمت پہ چھوڑتا ہوں ،
اگر مقدر کا کوئی ٹوٹا
کبھی ستارہ
تو میں تمہارا
یہ کس پہ تم تعویز کر رہے ہو ؟ 
یہ کس کو پانے کے ہیں وظیفے
تمام چھوڑو بس ایک کر لو
جو استخارہ 
تو میں تمہارا

ھم جو با لفرض کبھی تمہارے ہوئے

ھم جو با لفرض کبھی تمہارے ہوئے 
ھم کو کس نام سے پکاروگے ؟؟؟

درد رکھنا ہے تو پھر دیدۂ نم کیا رکھنا....

میں نے یہ سوچ کے ہنسنے کا ہنر سیکھ لیا
درد رکھنا ہے تو پھر دیدۂ نم کیا رکھنا....

وہی راتوں میں کروٹیں وہی دن میں بے چینیاں



وہی راتوں میں کروٹیں وہی دن میں بے چینیاں 

اے محبت. .................. زرا محبت سے پیش آ


اور اکثر گھونٹ گھونٹ پی ليتا ہوں


اور اکثر گھونٹ گھونٹ پی ليتا ہوں

میٹھی چائے کے ساتھ تلخياں سوچ کی۔۔۔۔۔۔

مری آنکھیں سلامت ہیں



مری آنکھیں سلامت ہیں

مرا دل میرے سینے میں دھڑکتا ہے
مجھے محسوس ہوتا ہے 
محبت کم نہیں ہوگی
محبت ایک وعدہ ہے
جو سچائی کی ان دیکھی کسی ساعت میں ہوتا ہے
کسی راحت میں ہوتا ہے
یہ وعدہ شاعری بن کر مرے جذبوں میں ڈھلتا ہے
مجھے محسوس ہوتا ہے 
محبت کم نہیں ہوگی
محبت ایک موسم ہے
کہ جس میں خواب اگتے ہیں تو خوابوں کی ہری
شاخیں 
گلابوں کو بلاتی ہیں 
انہیں خوشبو بناتی ہیں
یہ خوشبو جب ہماری کھڑکیوں پر دستکیں دے کر 
گزرتی ہے
مجھے محسوس ہوتا ہے 
محبت کم نہیں ہوگی

تمھاری آنکھیں کہتی ہیں،

تمھاری آنکھیں کہتی ہیں،

حصارٖ ذات سے نکلو،

تمنا میری بن جاؤ،
شب برباد سے نکلو،
کنارہ تھام لو دل کا،
بھلا دو سب گلے شکوے،
کبھی سچی ہنسی ہنسں دو،
پرانی یاد سے نکلو،
،در فریاد سے نکلو،
سہانی رات کا پہلو
اچانک،ہم سے کہتا ہے
،سجا لو آنکھ میں سپنے،
غموں رات سے نکلو،
بڑی مشکل میں لگتے ہو،
جو یوں رک رک کے چلتے ہو 
جو جی میں ہے وہ کر ڈالو،
بس ان حالات سے نکلو،
،ہمارے قرب کی چھوڑو،
تم اس عذاب سے نکلو۔۔۔۔!!!

سنو ۔۔۔۔!!!! ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺟﺎﻧﺐ ۔۔۔۔۔

سنو ۔۔۔۔!!!!

ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺟﺎﻧﺐ ۔۔۔۔۔
ﻭﺍﻟﮩﺎﻧﮧ ﺩﻭﮌ ﺭﮬﺎ ﮬﻮﮞ۔ ۔۔۔۔۔
ﮐﺎﺵ، ۔۔۔۔۔ !!!!!!
ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺪﻡ ﻣﻮﮌ ﺳﮑﺘﺎ۔

تم نے سچ بولنے کی جرات کی

تم نے سچ بولنے کی جرات کی
یہ بھی توہین ہے عدالت کی
منزلیں راستوں کی دھول ہوئیں
پوچھتے کیا ہو تم مسافت کی
اپنا زادِ سفر بھی چھوڑ گئے
جانے والوں نے کتنی عجلت کی
میں جہاں قتل ہو رہا ہوں وہاں
میرے اجداد نے حکومت کی
پہلے مجھ سے جدا ہوا اور پھر
عکس نے آئینے سے ہجرت کی
میری آنکھوں پہ اس نے ہاتھ رکھا
اور اک خواب کی مہورت کی
اتنا مشکل نہیں تجھے پانا
اک گھڑی چاہئے ہے فرصت کی
ہم نے تو خود سے انتقام لیا
تم نے کیا سوچ کر محبت کی
کون کس کے لیے تباہ ہوا
کیا ضرورت ہے اس وضاحت کی
عشق جس سے نہ ہو سکا ، اس نے
شاعری میں عجب سیاست کی
یاد آئی تو ہوئی شناخت مگر
انتہا ہو گئی ہے غفلت کی
ہم وہاں پہلے رہ چکے ہیں سلیم
تم نے جس دل میں اب سکونت کی

سلیم کوثر

نیا اک ربط پیدا کیوں کریں ہم

نیا اک ربط پیدا کیوں کریں ہم
بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم

خاموشی سے ادا ہو رسمِ دوری

کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم
__________
(جون ایلیاء)

تمھارے دیدار کی قیمت

تمھارے دیدار کی قیمت ____ اگر میرا خون ہوتا
تو اک اک قطرہ تمھارے اک اک جھلک پر بہا دیتا

Nov 23, 2017

یـار محــدود کــر ہمیـــں خــود میــں

یـار محــدود کــر ہمیـــں خــود میــں 
بِن تیــرے جا بجا بکھــرتے ہیــں ـــ

ﯾﻮﮞ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﺳﺎﻧﺲ ﺳﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﭨﮭﮩﺮﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ

ﺑﮩﺖ ﺩﻥ ﺳﮯ !
ﻣﺠﮭﮯ ﮐﭽﮫ ﺍَﻥ ﮐﮩﮯ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻧﮯ ﺑﮯ ﭼﯿﻦ ﮐﺮﺭﮐﮭﺎ ﮨﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﺳﻮﻧﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﮨﻨﺴﻨﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﺭﻭﻧﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ

ﯾﻮﮞ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ !

ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﺳﺎﻧﺲ ﺳﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﭨﮭﮩﺮﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ

ﯾﻮﮞ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ !
ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﺗﯿﺰ ﮔﺮﻣﯽ ﻣﯿﮟ
ﺫﺭﺍ ﺳﯽ ﺩﯾﺮ ﮐﻮ ﺑﺎﺭﺵ ﺑﺮﺱ ﮐﮯ ﺭﮎ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ
ﮔﮭﭩﻦ ﭼﺎﺭﻭﮞ ﻃﺮﻑ ﭘﮭﯿﻠﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ
ﺑﮩﺖ ﺩﻥ ﺳﮯ !
ﻣﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﭙﻨﻮﮞ ﮐﯽ
ﮐﻮﺋﯽ ﮈﻭﻟﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺍُﺗﺮﯼ
ﺑﮩﺖ ﺩﻥ ﺳﮯ !
ﺧﯿﺎﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ‘ ﺩﺑﮯ ﭘﺎﺅﮞ
ﮐﻮﺋﯽ ﺍﭘﻨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﯾﺎ
ﺑﮩﺖ ﺩﻥ ﺳﮯ !
ﻭﮦ ﺳﺐ ﺟﺬﺑﮯ !
ﺟﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﮯ ﻣﻮﺳﻤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﻧﮓ ﺑﮭﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ
ﮐﮩﯿﮟ ﺳﻮﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﺮﮮ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﻮﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﯿﮟ ﺍُﻥ ﮐﻮ ﮈﮬﻮﻧﮉﻧﮯ !
ﺍِﺱ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﺩﺷﺖ ﻣﯿﮟ ﻧﮑﻼ ﺗﻮ ﮨﻮﮞ ﻟﯿﮑﻦ !
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﮯ
ﺟﺬﺑﮯ !
ﺍﮔﺮ ﺍﮎ ﺑﺎﺭ ﮐﮭﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ
ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﮯ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ !
ﺍﺑﮭﯽ ﺍﮎ ﺁﺱ ﺑﺎﻗﯽ ﮨﮯ
ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﺍُﺱ ﺁﺱ ﮐﯽ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ
ﭼﻞ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ
ﺑﻈﺎﮨﺮ ﺷﺒﻨﻤﯽ ﭨﮭﻨﮉﮎ ﻣﺠﮭﮯ ﮔﮭﯿﺮﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﮯ
ﻣﮕﺮ ﻣﯿﮟ ﺟﻞ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﺗﮏ ﭼﻞ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ

سچا عاشق

سچا عاشق وھی ھے جو محبوبہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے نہ دے ۔۔۔۔اور ھونٹوں پہ لپ اسٹک مگر رھنے نہ دے ۔۔