Dec 12, 2017

کوئی نئی چوٹ پِھر سے کھاؤ! اداس لوگو

کوئی نئی چوٹ پِھر سے کھاؤ! اداس لوگو
کہا تھا کِس نے، کہ مسکراؤ! اُداس لوگو
گُزر رہی ہیں گلی سے، پھر ماتمی ہوائیں
کِواڑ کھولو ، دئیے بُجھاؤ! اُداس لوگو
جو رات مقتل میں بال کھولے اُتر رہی تھی
وہ رات کیسی رہی ، سناؤ! اُداس لوگو
کہاں تلک، بام و در چراغاں کیے رکھو گے
بِچھڑنے والوں کو، بھول جاؤ! اُداس لوگو
اُجاڑ جنگل ، ڈری فضا، ہانپتی ہوائیں
یہیں کہیں بستیاں بساؤ! اُداس لوگو
یہ کِس نے سہمی ہوئی فضا میں ہمیں پکارا
یہ کِس نے آواز دی، کہ آؤ! اُداس لوگو
محسن_نقوی💔💔

وہ کہتی ہے کہ کیا اب بھی


 وہ کہتی ہے کہ کیا اب بھی کسی کے لئے لال ہری چوڑیاں خریدتے ہو
میں کہتا ہوں اب کسی کی کلائی پر یہ رنگ اچھا نیہں لگتا
وہ کہتی ہے کہ کیا اب بھی کسی آنچل کو آکاش لکھتے ہو؟
میں کہتا ہوں اب کسی کے آنچل میں اتنی وسعت کہاں ہے
وہ کہتی ہے کہ کیا میرے بعد کسی لڑکی سے محبت ہوئی ہے تمہیں؟
میں کہتا ہوں ، محبت صرف لڑکی پر مشتمل نہیں ہوتی
وہ کہتی ہے کہ جاناں ! لہجے میں بہت اداسیت سی ہے؟
میں کہتا ہوں کہ تتلیوں نے بھی میرے دکھوں کو محسوس کیا ہے
وہ کہتی ہے کہ کیا اب بھی مجھے بے وفا کے نام سے یاد کرتے ہو؟
میں کہتا ہوں کہ میرے نصیب میں یہ لفظ شامل نہیں ہے
وہ کہتی ہے کہ کبھی میرے ذکر پر رو بھی لیتے ہو؟
میں کہتا ہوں کہ میری آنکھوں کو ہر وقت کی پھوار اچھی لگتی ہے
وہ کہتی ہے کہ تمہاری باتوں میں اتنی گہرائی کیوں ہے؟
میں کہتا ہوں کہ تیری جدائی کے بعد مجھ کو یہ اعزاز ملا ہے!

میں اکثر پڑھتا رہتا ہوں

میں اکثر پڑھتا رہتا ہوں کبھی شاعر کی غزلوں میں
کبھی شاعر کی نظموں میں کبھی قصے کہانی میں
محبت یہ نہیں ہوتی  محبت وہ نہیں ہوتی
محبت ایسی ہوتی ہے محبت ویسی ہوتی ہے
مرا یہ ماننا ہے کہ  محبت بس محبت ہے
محبت دکھ نہیں دیتی محبت میں کوئی تنہا نہیں ہوتا
محبت کا اداسی سے کوئی رشتہ نہیں ہوتا
محبت کرنے والے دشت میں خوشحال رہتے ہیں
محبت میں محبت سے کوئی امید کر لینا حماقت ہے
جہاں امید ہوتی ہے محبت ہو نہیں سکتی
محبت میں کوئی آگے نہیں ہوتا کوئی پیچھے نہیں ہوتا
بڑا کوئی نہیں ہوتا کوئی چھوٹا نہیں ہوتا
کسے کے جسم سے اور روح سے رشتہ نہیں ہوتا
محبت تو کسی بھی چیز کے *ہونے* سے ہوتی
یہ *ہونا*فلسفہ ہے اک یہ *ہونے* اور *نہیں ہونے* کا مطلب جو سمجھتا ہے
محبت اس کو ہوتی ہے
محبت میں کبھی موجودگی کو شرط رکھ دینا
کسی کی زندگی کو شرط رکھ دینا محبت ہو نہیں سکتی 
محبت میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کبھی ایسا نہیں ہوتا
کہ بس اس سے محبت ہو  جو بدلے میں محبت دے
محبت رسم تھوڑی ہے محبت بس محبت ہے

انعام عازمی

Dec 10, 2017

ﺟﯿﻨﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ


ﺟﯿﻨﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ ﻣﭩﯽ ﮐﯽ ﻣﻮﺭﺕ ﺳﮯ ----- ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮐﯽ ﺑﯿﻠﯿﮟ ﻟﭙﭩﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﯿﮟ
ﺳﺎﻧﺴﻮﮞ ﮐﯽ ﺁﺭﯼ ﺟﺐ ﺗﮏ ﭼﻠﺘﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ----- ﮐﭽﮫ ﻧﺎﮞ ﮐﭽﮫ ﮐﭩﺘﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ .ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺑﮯ ﮐﺎﺭ ﻣﺴﺎﻓﺖ
ﺑﮭﻮﮒ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﮐﻢ ﺭﻭﺷﻦ ﮐﻮﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﻭ ﻟﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﺍﺑﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﭩﺘﺎ
ﭘﺮ ﺭﻭﻧﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﺯﻧﺪﺍﻧﯽ ﮐﯽ ﻟﻤﺒﯽ ﻟﻤﺒﯽ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﺍﻧﺪﺭ ﻟﻤﺲ ﺑﮭﺮﯼ ﺍﻣﯿﺪﻭﮞ ﮐﻮ ﺳﯿﻨﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ
ﺟﯿﻨﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ
ﺗﻮ ﻧﮯ ﺟﻦ ﺍﻧﺪﯾﺸﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﺭﺯﻭﮞ ﺳﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺗﻮ ﻧﮯ ﺟﻦ ﻣﺤﺮﺍﺑﻮﮞ ﭘﺮ
ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﻟﭩﮑﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﻧﮯ ﺟﻦ ﺭﺳﺘﻮﮞ ﭘﺮ ﺭﻭﺷﻦ ﺭﻭﺷﻦ ﭘﺎﺅﮞ ﺭﮐﮭﮯ ﻭﮦ ﺩﺭﺯﯾﮟ، ﻣﺤﺮﺍﺑﯿﮟ، ﭘﺎﺅﮞ
ﺭﺯﻕ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﺤﺮﻭﻣﯽ ﮐﺎ، ﺑﮯﺗﺎﺑﯽ ﮐﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﻦ ﺻﺒﺤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﮮ ﻟﻤﺲ ﮐﺎ ﮐﮭﺎﺗﮧ ﻟﮑﮭﺎ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﻦ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﺗﯿﺮﯼ ﯾﺎﺩ ﮐﺎ ﭼﺎﻧﺪ ﻧﮑﺎﻻ
ﮐﺴﯽ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﮐﺴﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﺝ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﯿﻮﻥ ﺳﺎﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﺴﺘﯽ ﻣﯿﮟ
ﮔﮭﻠﺘﯽ ﻟﮍﮐﯽ
ﭼﺎﺭﻭﮞ ﺟﺎﻧﺐﺍﻧﺪﯾﺸﻮﮞ ﮐﺎ ﮐﮭﺎﺭﺍ ﭘﺎﻧﯽﺩﺭ ﺁﺋﮯ ﺗﻮﭘﯿﻨﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ
ﺟﯿﻨﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ

ﺳﻨﻮ ﺟﻦ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﻮ


ﺳﻨﻮ ﺟﻦ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﻮ
ﻭﮦ ﺟﮕﻨﻮ ﮨﻮﮞ،ﭘﺮﻧﺪﮮ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﻧﺴﺎﮞ ﮨﻮﮞ
ﺍﻧﮩﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﻣﭩﮭﯿﻮﮞ ﺳﮯ ،ﺍﻭﺭ ﻗﻔﺲ ﺳﮯ
ﺁﺭﺯﻭﺋﮯ ﻃﻠﺐ ﺳﮯ ﺁﺯﺍﺩ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻗﯿﺪﯼ ﺑﻨﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻧﮧ ﮨﯽ ﻣﻘﯿﺪ ﮐﺮﺗﮯ ہیں 
ﻣﺤﺒﺖ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﮐﯽ ﺑﻨﺪﺵ ﺳﮯ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﻧﺎ
ﻣﺤﺒﺖ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ ﺩﻝ ﮐﮯ ﻗﻔﺲ ﺳﮯ ﺁﺭﺯﻭ ﺁﺯﺍﺩ ﮐﺮﺩﯾﻨﺎ
ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﻭ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ
ﭘﺮﻧﺪﻭﮞ ﮐﻮ ﺭﮨﺎ ﮐﺮﺩﻭ
ﺍﻭﺭ ﻣﭩﮭﯽ ﮐﮭﻮﻝ ﮐﺮﻧﻨﮭﮯ ﺳﮯ ﺟﮕﻨﻮﮐﻮ ﺍﮌﺍﮈﺍﻟﻮ
ﺭﮨﺎ ﺍﻧﺴﺎﻥ
ﻭﮦ ﺑﮯﭼﺎﺭﮦ
ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﻗﯿﺪﯼ ﮨﮯ
ﮐﺮﺏ ﮐﺎ،ﺭﻧﺞ ﻭ ﺍﻟﻢ ﮐﺎ، ﺭﻭﺯﮔﺎﺭ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ،ﺍﻭﺭﺟﺒﺮ ﮐﺎ،
ﻭﮦ ﺻﺪﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﺌﯽ ﺟﯿﻠﻮﮞ ،ﮐﺌﯽ ﻧﻔﺴﻮﮞ ،
ﮐﺌﯽﻗﻔﺴﻮﮞ ﮐﺎ ﻗﯿﺪﯼ ﮨﮯ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻗﯿﺪ ﺳﮯ ﺁﺯﺍﺩ ﮨو ﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺎﮞﺟﺎﺋﮯ؟
ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﮎ ﮐﮭﮍﮐﯽ ﮨﯽ ﺳﮩﯽ
ﮐﮭﻞ ﺗﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ
ﭼﻠﻮ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺳﮩﯽ
ﺗﺎﺯﮦ ﮨﻮﺍ ﻣﻞ ﺗﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ
ﺳﻨﻮ ﺟﻦ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﻮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺁﺯﺍﺩ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﻗﻔﺲ ﺳﮯ، ﺁﺭﺯﻭﺋﮯ ﻃﻠﺐ ﺳﮯ

اسے کہنا بچھڑنے سے محبت تو نہیں مرتی


اسے کہنا بچھڑنے سے محبت تو نہیں مرتی . . 
بچھڑ جانا محبت کی صداقت کی علامت ہے . .
محبت ایک فطرت ہے ، ہاں فطرت کب بدلتی ہے . . 
سو ، جب ہم دور ہو جائیں ، نئے رشتوں میں کھو جائیں . .
تو یہ مت سوچ لینا تم ، کہہ محبت مر گئی ہو گی . . 
نہیں ایسی نہیں ہوگا . .
میرے بارے میں گر تمہاری آنکھیں بھر آئیں . . 
چھلک کر ایک بھی آنسو پلک پہ جو اُتَر آئے . .
تو بس اتنا سمجھ لینا ، 
جو میرے نام سے اتنی تیرے دل کو عقیدت ہے . .
تیرے دل میں بچھڑ کر بھی ابھی میری محبت ہے . . 
محبت تو بچھڑ کر بھی سدا آباد رہتی ہے . .
محبت ہو کسی سے تو ہمیشہ یاد رہتی ہے . . 
محبت وقت کے بے رحم طوفان سے نہیں ڈرتی . .
اسے کہنا بچھڑنے سے محبت تو نہیں مرتی . . . !

Dec 9, 2017

‎محبت درد کی صو ر ت

‎محبت درد کی صو ر ت
گزشتہ موسموں کا استعارہ بن کے رہتی ہے
شبانِ ہجر میںروشن ستارہ بن کے رہتی ہے
منڈیروں پر چراغوں کی لوئیں جب تھرتھر اتی ہیں
نگر میں نا امیدی کی ہوئیں سنسناتی ہیں
گلی جب کوئی آہٹ کوئی سایہ نہیں رہتا
دکھے دل کے لئے جب کوئی دھوکا نہیں رہتا
غموں کے بوجھ سے جب ٹوٹنے لگتے ہیں شانے تو
یہ اُن پہ ہاتھ رکھتی ہے
کسی ہمدرد کی صورت
گزر جاتے ہیں سارے قافلے جب دل کی بستی سے
فضا میں تیرتی ہے دیر تک یہ
گرد کی صورت
محبت درد کی صورت...!!!!

کوئی مجھ کو مرا بھر پور سراپا لا دے

کوئی مجھ کو مرا بھر پور سراپا لا دے
مرے بازو ، مری آنکھیں، مرا چہرہ لا دے
ایسا دریا جو کسی اور سمندر میں گرے
اس سے بہتر ہے کہ مجھ کو مرا صحرا لا دے
کچھ نہیں چاہئے تجھ سے اے مری عمرِ رواں
مرا بچپن، مرے جگنو، مری گڑیا لا دے
جس کی آنکھیں مجھے اندر سے بھی پڑھ سکتی ہوں
کوئی چہرہ تو مرے شہر میں ایسا لا دے
کشتئ جاں تو بھنور میں ہے کئی برسوں سے
اے خدا اب تو ڈبو دے یا کنارا لا دے
نوشی گیلانی

Dec 8, 2017

ان موسموں میں ناچتے گاتے رہیں گے ہم

ان موسموں میں ناچتے گاتے رہیں گے ہم
ہنستے رہیں گے شور مچاتے رہیں گے ہم
لب سوکھ کیوں نہ جائیں گلا بیٹھ کیوں نہ جائے
دل میں ہیں جو سوال اٹھاتے رہیں گے ہم
اپنی رہِ سلوک میں چپ رہنا منع ہے
چپ رہ گئے تو جان سے جاتے رہیں گے ہم
نکلے تو اس طرح کہ دکھائی نہیں دیے
ڈوبے تو دیر تک نظر آتے رہیں گے ہم
دکھ کے سفر پہ دل کو روانہ تو کردیا
اب ساری عمر ہاتھ ہلاتے رہیں گے ہم

(احمد مشتاقؔ)

Dec 6, 2017

سچ کو ایسا کیا گیا جھوٹا

سچ کٹھن امتحان لگتا ہے
جھوٹ اب مہربان لگتا ہے
سچ کو ایسا کیا گیا جھوٹا
جھوٹ سچا بیان لگتا ہے
سچ مسافر ہے کوئی بھٹکا ہوا
جھوٹ اک کاروان لگتا ہے
سچ تو کمتر ہوا , ہوا چھوٹا
جھوٹ اونچی دکان لگتا ہے
سچ ہے باندی غلام گردش کی
جھوٹ شاہوں کی شان لگتا ہے
سچ ہے فٹ پاتھ کا کوئی باسی 
جھوٹ محفل کی جان لگتا ہے
سچ فقیروں کا آستانہ ہے
جھوٹ اپنا مکان لگتا ہے
سچ ہے گالم گلوچ شرفا کی
جھوٹ اہلِ زبان لگتا ہے
سچ کہ لاغر سا ایک بڈھا ہے
جھوٹ ہر دم جوان لگتا ہے
سچ رعایا کی گفتگو جیسا
جھوٹ خود حکمران لگتا ہے
سچ یہی ہے کہ آج کل ابرک
جھوٹ سارا جہان لگتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اتباف ابرک

ہم میسر ہیں سہارا کیجے

ہم میسر ہیں سہارا کیجے
جب بھرے دل تو کنارا کیجے
آپ پہ طے ہے بہار آنی ہے
دو گھڑی ہم پہ گزارا کیجے
ہم بھی آنسو ہیں چھلک جائیں گے
بس ذرا دیر گوارا کیجے
روئیے کھول کے دل اچھا ہے
کاہے یہ فرض ادھارا کٰیجے
آئینہ ہم کو سمجھ لیجے کبھی
اور پھر خود کو سنوارا کیجے
کچھ تعلق کا گماں ہوتا ہے
یونہی بے وجہ پکارا کیجے
خواب میں کر کے گزر پھر اپنا
کچھ تو امید ابھارا کیجے
جب کوئی صبح نئی مل جائے
ہم کو بھی ڈوبا ستارا کیجے
جائیے آپ اجازت ہے مری
اب کوئی اور بے چارا کیجے
یہ جو سامان میں دو آنسو ہیں
ان پہ بس نام ہمارا کیجے
دل جو پھر چاہے کوئی توڑنا دل 
ہم پہ ہی کرم دوبارہ کیجے
جو فراموش ہوے ہو ابرک
آپ بھی عقل خدارا کیجے
ایک سے ایک حسیں ملتے ہیں
منتظر ہیں کہ اشارا کیجے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اتباف ابرک

میں خود پرست ہوگیا ہوں۔

تُم اپنے لب کاٹ کاٹ کر
ہر لفظ کو بے عنوان کر دیتی ہو
میں بھی احساس کی لَو کو
ہنسی کی ہوا سے بُجھا دیتا ہوں
تُم چاہتی ہو تجدیدِ محبت میں کروں
میں چاہتا ہوں کہ تُم مجھے حیرت میں ڈالو
وہ ایک بات جو ہمیں کہنی ہے
مگر ہم کہہ نہیں پاتے کہ ۔۔۔۔
جانے کس منزل پر آکر ہم کھڑے ہیں
جہاں تُم اَنا پرست بن گئے ہو
اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں خود پرست ہوگیا ہوں۔

بہت تکلیف دیتا ہے کسی کو الوداع کہنا

بہت تکلیف دیتا ہے کسی کو الوداع کہنا
دکھائی کچھ نہیں دیتا سنائی کچھ نہیں دیتا
فقط کچھ کپکپاتے لفظ جو ہونٹوں پر ٹھہر جائیں
ابھرتی ڈوبتی دھڑکن اسے آواز دیتی ہے
کوئی اپنا کے جس کا نام اپنے دل پے لکھا ہو
کے جس کے واسطے دل سے دعائیں ہی نکلتی ہوں
بہت تکلیف دیتا ہے اسی کو الوداع کہنا
جسے دل میں بسایا ہو بیری ہی مان سے
جسکو کبھی اپنا بنایا ہو بہت تکلیف ہوتی ہے
بہت تکلیف دیتا ہے اسی کو الوداع کہنا . . .

بہت تکلیف دیتا ہے اسی کو الوداع کہنا .

Dec 5, 2017

نہ تصاویر ، نہ تزئین سے بن سکتی تھی

نہ تصاویر ، نہ تزئین سے بن سکتی تھی
یہ غزل اچھی ، مضامین سے بن سکتی تھی
سات کے سات بھرے رنگ تری آنکھوں میں
ورنہ تصویر تو دو تین سے بن سکتی تھی
تم نے مانگی ہی نہیں ساتھ دعائیں میرے
بات بگڑی ہوئی آمین سے بن سکتی تھی..
تم نے بدلا ہے جو منظر کو بہت عجلت میں
یہ کہانی تو اسی سین سے بن سکتی تھی
دشمنا ! تیری عداوت سے مھے فرق نہیں
پر لڑائی مری توہین سے بن سکتی تھی
مذہب - عشق میں رتبے نہیں دیکھے جاتے
ہم فقیروں کی اسی دین سے بن سکتی تھی
چار دیواری اٹھانے کو تھی ہمت درکار........
چھت کا کیا ہے وہ کسی ٹین سے بن سکتی تھی

Dec 4, 2017

جہاں پر تم نے چھوڑا تھا

جہاں پر تم نے چھوڑا تھا
وہیں موجود ہوں شاید بہت محدود ہوں
دیکھو ابھی تک کچھ نہیں بدلا
مِرے بستر پہ وہ ہی رات تکیے سے لپٹ کر رو رہی ہے
جس کا ہم نےـوصل کی شب نام رکھا تھا
مرے کمرے کی اک دیوار پہ تصویر میں وہ شام کامنظر
تمہاری یاد میں ڈوبا ہی رہتاہے
اذیت سے بھرا اک دکھ
ابھی تک میز پر رکھے ہوئے کاغذ کے ٹکڑے پر پڑا ہے
جو محبت کے کسی بھی آخری جملے میں ہوتا ہے
محبت اور نفرت کا ہر اک لمحہ مرے سینے میں رکھا ہے
نہ جانے جرم کیا ہے اور کیسی قید ہے جس میں
میں اپنے جسم کا ہر ایک حصہ قید پاتا ہوں
چلوں توپائوں میں وعدوں کی زنجیریں کھنکتی ہیں
کہیں بھی جا نہیں سکتا
ابھی تک کچھ نہیں بدلا
جہاں پر تم نے چھوڑا تھا
وہیں موجود ہوں شاید بہت محدود ہوں

مرحوم زندگی کی حراست میں

مرحوم !
مرحوم زندگی کی حراست میں مر گیا 
سخت دل تھا اتنا_ نفاست سے مر گیا
وہ ایک شخص انوکھا ہی سخی تھا کہ جو 
اپنے ہی دل کی _ سخاوت سے مر گیا
حاصل کچھ نا ادھر سے آیا، نا ادھر سے 
اپنے قبیلے سے کی ہوئی بغاوت میں مر گیا
لوگ کہا کرت تھے صاف دل ہے بہت 
لوگ کہتے ہیں _عداوت سے مر گیا
مرحوم زندگی کی حراست میں مر گیا 
سخت دل تھا اتنا_ نفاست سے مر گی
  سرور بن مظفر

پرائی نیند میں سونے کا تجربہ کر کے

پرائی نیند میں سونے کا تجربہ کر کے 
میں خوش نہیں ہوں تجھے خود میں مبتلا کر کے 
یہ کیوں کہا ؟ کے تجھے مجھ سے پیار ھو جائے ؟؟
تڑپ اُٹھا ھوں تیرے حق میں بد دعا کر کے 
میں جُوتیوں میں بھی بیٹھا ھوں پورے مان کے ساتھ
کسی نے مجھ کو بُلایا ھے، التجا کر کے
تو پھر وہ روتے ھوئے منتیں بھی مانتے ہیں
جو انتہا نہیں کرتے ہیں، ابتداء کر کے
بشر سمجھ کے کیا تھا نہ یوں نظر انداز ؟؟
لے میں بھی چھوڑ رہا ھوں تجھے خُدا کر کے
منا بھی لونگا، گلے بھی لگاؤنگا میں علی
ابھی تو دیکھ رہا ہوں اُسے خفا کر کرکے

علی زریون

بہت تھک چکا ہوں

بہت تھک چکا ہوں
یہی خود کو لکھنا اذیت کا سہنا
محبت کی نظمیں مکمل نہ ہونی
ہوا کا کوئی بھید مجھ پر نہ کھُلنا
میں کیا کر رہا ہوں
خبر بھی نہیں ہے کسے لکھ رہا ہوں
بہت تھک چکا ہوں
وہی جھیل اور جھیل کا اِک کنارا
وہ قصہ ہمارا
وہی نامکمل کہانی بھُلائے نہ بھولے
وہی چند پتھر ۔۔۔لرزتے ہوئے عکس
وہی جھیل کا رقص
وہی کیفیت تنگ ہونے لگا ہوں
بہت تھک چکا ہوں
بدن میں تھکاوٹ نہیں پر مِری آتما تھک چکی ہے
مسافت بھی جیسے بہت بڑھ چکی ہے
تذبذب ہے سکتہ ہے سانسوں کی لے ٹوٹتی جا رہی ہے
کوئی ساتھ ہے چھوٹتا جا رہا ہے
مِرے ہاتھ پائوں بھی شل ہو رہے ہیں
میں پانی میں اب ڈوبتا جا رہا ہوں
بہت تھک چکا ہوں.....

Dec 3, 2017

تو کہیں بھیگتا نہ ہو تنہا !

تو کہیں بھیگتا نہ ہو تنہا ! 
ایک دھڑکا لگا گئی بارش
بند کھڑکی کے صاف شیشوں پر
عکس تیرا بنا گئی بارش
وقتِ رُخصت تجھے نہیں معلوم 
کتنے آنسو چھپا گئی بارش
قطرہ قطرہ گِری مگر پھر بھی 
زخم گہرا لگا گئی بارش

ڈاکٹر احمد ندیم رفیع

وہی بے ربط یارانے ٗ وہی فنکاریاں اس کی

وہی بے ربط یارانے ٗ وہی فنکاریاں اس کی
بڑا بے چین کرتی ہیں تعلق داریاں اس کی
محبت کر کے بھی اس نے بدلی نہیں عادت
نہ اچھی رنجشیں, نہ اچھی یاریاں اس کی
بہت تکلیف دیتی ہیں کہ دونوں کو نہیں بھاتیں
اسے آسانیاں میری ٗ مجھے دشواریاں اس کی
کئی دن سے فقط اک خامشی کا ربط قائم ہے
بہت یاد آ رہی ہیں آج دل آزاریاں اس کی
کہاں تک ساتھ چل سکتے تھے ہم کہانی میں
ادھر میری جنوں خیزی ادھر بیزاریاں اس کی ___!!

Dec 2, 2017

میرے رشک قمر تو نے پہلی نظر جب نظر سے ملائی مزا آ گیا


میرے رشک قمر تو نے پہلی نظر جب نظر سے ملائی مزا آ گیا 
برق سی گر گئی کام ہی کر گئی آگ ایسی لگائی مزا آ گیا 
جام میں گھول کر حسن کی مستیاں چاندنی مسکرائی مزہ آ گیا 
چاند کے سائے میں اے مرے ساقیا تو نے ایسی پلائی مزہ آ گیا 
نشہ شیشے میں انگڑائی لینے لگا بزم رنداں میں ساگر کھنکنے لگا 
میکدے پہ برسنے لگیں مستیاں جب گھٹا گھر کے آئی مزہ آ گیا 
بے حجابانہ وہ سامنے آ گئے اور جوانی جوانی سے ٹکرا گئی 
آنکھ ان کی لڑی یوں مری آنکھ سے دیکھ کر یہ لڑائی مزہ آ گیا 
آنکھ میں تھی حیا ہر ملاقات پر سرخ عارض ہوئے وصل کی بات پر 
اس نے شرما کے میرے سوالات پہ ایسے گردن جھکائی مزہ آ گیا 
شیخ‌ صاحب کا ایمان بک ہی گیا دیکھ کر حسن ساقی پگھل ہی گیا 
آج سے پہلے یہ کتنے مغرور تھے لٹ گئی پارسائی مزہ آ گیا 
اے فناؔ شکر ہے آج باد فنا اس نے رکھ لی مرے پیار کہ آبرو 
اپنے ہاتھوں سے اس نے مری قبر پہ چادر گل چڑھائی مزہ آ گیا

وقت ہے آخری، آخری سانس ہے

وقت ہے آخری، آخری سانس ہے
زندگی کی ہے شام، آخری آخری
سنگ دل آ بھی جا، اب خُدا کے لئیے
لب پہ ہے تیرا نام، آخری آخری
کیسے تنہا کٹے گا عدم کا سفر
اس سے کہنا اسے ڈھونڈتی ہے نظر
نامہ بر تو خُدارا نہ اب دیر کر
دے دے اُن کو پیغام، آخری آخری
میرے یاروں نے نہلا کے کفنا دیا
دو گھڑی بھی نہ بیتی کہ دفنا دیا
کون کرتا ہے غم، ٹوٹتے ہی یہ دم
کر دیا انتظام______آخری آخری
جیتے جی قدر میری کسی نے نہ کی
زندگی بھی رضا، بے وفا ہو گئی
دنیا والو مبارک یہ دنیا تمہیں
کر چلے ہم سلام، آخری آخری

Nov 30, 2017

یہ رقصِ شامِ غم ہے اور مَیں ہوں

یہ رقصِ شامِ غم ہے اور مَیں ہوں
محبت محترم ہے اور مَیں ہوں
پہاڑوں پر پرندے جاگتے ہیں
دعائے صُبحِ دم ہے اور مَیں ہوں
مِرے ہونٹوں پہ اِک حرفِ دعا ہے
تِری چشمِ کرم ہے اور مَیں ہوں
سَرساحل یہ بِکھری سیپیاں ہیں
ہَََوائے تازہ دَم ہے اور مَیں ہوں
کِسی کی یاد کے تنہا سفر میں
یہ میری چشمِ نم ہے اور مَیں ہوں
بدن پر بَین کرتی خامُشی ہے
تِری مشقِ ستم ہے اور مَیں ہوں
دِییے آنکھوں کے, بُجھتے جا رہے ہیں
کوئ شہرِ الم ہے اور مَیں ہوں

اِک نَظر کاسہءِ حیات میں رَکھ

اِک نَظر کاسہءِ حیات میں رَکھ
خُود کو جیت اور مُجھکو مات میں رکھ
رکھ کہ تُو بُھول جا مُجھے بیشک
اور سمجھ ٹُوٹا پُھوٹا سامان ہے
گھر کے اُجڑے ہُوۓ کونے میں کہیں
چاھے تو فالتُو کباڑ میں رکھ
تُو سجا آنگنوں میں اپنے پُھول
مُجھکو بیشک کہیں اُجا ڑ میں رکھ
رکھتے ہیں مان پھیلے دامن کا
چاک دامَن ہُوں یہ گَیان میں رکھ
ٹھوکروں تک کا سَنگ نظر میں رہے
مُجھکو بھی تھوڑا سادھیان میں رَکھ
میں اگَر جاؤُں مُخالف تیرے تو میں کافِر
میرا ہر اِک قدم تُو گھات میں رَکھ
ایک پل کو جو بِہکوں دائرہءِ مُحبَّت سے
خُود کو تُودے ثَبات اور مُجھے مَمات میں رَکھ

رات کا وقت ھے خاموشی ھے تنہائ ھے

رات کا وقت ھے خاموشی ھے تنہائ ھے
دل میں چٌپکے سے تیری یاد اٌمڈ آئ ھے
کہیں لگتا ہی نہیں لاکھ لگا کے دیکھا 
میرے مولا یہ میرا دل ھے کہ ہرجائ ھے 
اکھیوں سے چھلکیں تو تھمتے نہیں آنسو 
اب کے برسات نینوں میں اٌتر آئ ھے 
پھر آج اٌس کا ذکر کرتے کرتے 
دل بھر آیا ھے آواز لڑکھڑائ ھے 
ذندگی! تجھ سے کیا گٍلا کرنا 
میری قسمت میں بے وفائ ھے 

تاشفین فاروقی

رخصت ہوا تو بات میری مان کر گیا​

رخصت ہوا تو بات میری مان کر گیا​
جو اُس کے پاس تھا،وہ مجھے دان کر گیا​
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی​
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا​
دلچسپ واقعہ ہے کل اک عزیز دوست​
اپنے مفاد پر مجھے قربان کر گیا​
کتنی سدھر گئی ھے جدائی میں زندگی​
ہاں وہ جفا سے مجھ پر احسان کر گیا​
خالد میں بات بات پہ کہتا تھا جس کو جان​
وہ شخص آخرش مجھے بے جان کر گیا
Show More React

نیناں برسیں رِم جِھم رِم جِھم

نیناں برسیں رِم جِھم رِم جِھم
پیا تورے آون کی آسوہ دن میری نگاھوں م

وہ یادیں میری آھوں میںیہ دل اب تک بھٹکتا ھے
تیری اُلفت کی راھوں میںسوُنی سوُنی راھیں
سہمی سہمی بانہیںآنکھوں میں ھے برسوں کی پیاس۔
نیناں برسیں رِم جِھم رِم جِھم
نظر تُجھ بن مچلتی ھے
محبت ھاتھ ملتی ھے
چلا آ میرے پروانے
وفا کی شمع جلتی ھے
او میرے ھم راھی
پھرتی ھوں گبھرائی
جہاں بھی ھے ، آ جا میرے پاس
نیناں برسیں رِم جِھم رِم جِھم
ادھورا ھوں میں افسانہ
جو یاد آؤں چلے آنا
میرا جو حال ھے تجھ بن
وہ آ کر دیکھتے جانا
بھیگی بھیگی پلکیں
چھم چھم آنسو چھلکیں
کھوئی کھوئی آنکھیں ھیں اُداس
نیناں برسیں رِم جِھم رِم جِھم
یہ لاکھوں غم یہ تنہائی
محبت کی یہ رُسوائی
کٹی ایسی کئی راتیں
نہ تم آئے نہ موت آئی
یہ بندیا کا تارا
جیسے ھو انگارا
مہندی میرے ھاتھوں کی اُداس
نیناں برسیں رِم جِھم رِم جِھم
پیا تورے آون کی آس
نیناں برسیں ، رِم جِھم رِم جِھم
”راجہ مہدی علی خان“

Nov 29, 2017

اُس حُسن کے نام پہ یاد آئے

اُس حُسن کے نام پہ یاد آئے
سب منظر ”فیض“ کی نظموں کے
وھی رنگِ حنا ، وھی بندِ قبا 
وھی پھول کُِھلے پیراھن میں

کچھ وہ جنہیں ھم سے نسبت تھی 
ان کوچوں میں آن آباد ھُوئے
کچھ عرش پہ تارے کہلائے 
کچھ پُھول بنے جا گلشن میں

”اِبنِ انشاء“

تُو بھی اے شخص کیا کرے آخر

To be your friend
I became my own enemy!
تُو بھی اے شخص کیا کرے آخر
مجھ کو سر پھوڑنے کی عادت ہے !
جون ایلیا

عشق تو لاٹری ھے بچوں کی

عشق تو لاٹری ھے بچوں کی
کِس نے جیتی ھے یہ سیاست سے
بِن بُلائے یہ آن ٹپکے ھے
عشق ھوتا ھے کب اجازت سے ؟؟
دائیں بائیں مِرے خسارے ھیں
باز آیا نہ میں تجارت سے
اُس کے آنسو چُرا کے بھاگا ھُوں
اُس کو لُوٹا ھے پِھر محبت سے
اب نہ پھینکوں گا جھیل میں کنکر
باز آیا میں اِس شرارت سے
وہ بھی بندہ ھے تھوڑا من موجی
میں بھی رکھتا ھُوں بس ضرورت سے
وہ بھی مصروف ھے کہیں عابی !!
میں بھی فارغ نہیں فراغت سے
”عابی مکھنوی“

اِس کہانی میں اور کیا ھو گا

اُس کی یادوں کا سلسلہ ھو گا
اِس کہانی میں اور کیا ھو گا ؟؟
جو بچھڑ کر بھی وہ خاموش رھا
گھر پہنچ کر تو رو دیا ھو گا
خود کو سمجھا لیا ھے میں نے , مگر
کیا وہ خود بھی بدل گیا ھو گا ؟؟
اتنا آساں نہ تھا مجھے کھونا
اس نے خود کو گنوا دیا ھو گا
مجھ کو ویران کر دیا جس نے
کہیں آباد تو ھُوا ھو گا ؟؟
سوچتا ھُوں جو مجھ کو چاھتا تھا
یاد مجھ کو کر رھا ھو گا
”تاجدار عادل“

Nov 28, 2017

سنو ! ایسا نہیں کرتے

‏سفرتنہا نہیں کرتے
سنو ! ایسا نہیں کرتے
جسے شفاف رکھنا ہو
اسے میلا نہیں کرتے
تیری آنکھیں اجازت دیں
تو ہم کیا کیا نہیں کرتے
جو مل کے خود سے کھوجائے
اسے رُسوا نہیں کرتے ___
تیری آنکھوں کو پڑھتے ہیں
تجھے دیکھا نہیں کرتے
چلو تم راز ہو اپنا __
تجھے افشاہ نہیں کرتے !!

مسلئہ ختمِ نبّوت

*مسلئہ ختمِ نبّوت*
*دیہات میں چوری کی واردات کا ایک طریقہ، چور اپناتے ہیں ۔ وہ جس گھر کو ٹارگٹ کرتے ہیں تو آدھی رات کو اس گھر میں دو تین پتھر پھینکتے ہیں، اور ایسا دو تین راتیں کرتے ہیں، اگر گھر والوں کی طرف سے کچھ ری ایکشن ہو مثلا ً کوئی کہے کہ کون ہے باہر، یا یا لائٹ آن ہوجائے یا پھر کوئی چلتا پھرتا محسوس ہو تو چور اس گھر کا اردہ ملتوی کر دیتے ہیں۔*
*لیکن اس کے برعکس اگر ان چھوٹے چھوٹے پتھروں کے جواب میں کوئی رد عمل نہ ہو تو چور پوری تیاری کے ساتھ آ کر ڈاکہ ڈال کر چلے جاتے ہیں،*
*تو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ "ختم نبوت " کی شق ہٹانے، نہ ہٹانے، یا پھر معمولی الفاظ کی ردو بدل کو معمولی نہ سمجھیں، بلکہ یہ وہ پتھر ہیں جس سے چور آپ کی بیداری کا اندازہ لگا رہا ہے*
*اس لیے ختم نبوت پر کوئی مصالحت برداشت نہ کی جائے۔
*ناموس رسالت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر میری جان بھی قربان. میں حلفیہ قسم کھاکر کہتا ہوں کہ میں قادیانی جھوٹے نبی مرزا غلام احمد قادیانی پر لعنت بھیجتا ہو۔اگر آپ بھی حلفیہ اقرار کرتے ہیں تو اس پوسٹ کو اپنے دوستوں کو شیئر کیجیے*
*غلامی رسول ؐ میں موت بھی قبول ہے*
*نہ ہو جو عشق مصطفیٰ ؐ تو زندگی فضول ہے۔*
*اَلَّهُمَّ صَلِّ عَلَى ُمحَمَّدِ ُّوعَلَى اَلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى اِبْرَاهِيْمَ وَعَلَى اَلِ ابْرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيْدُ مَجِيِداَلَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمّدِ ٌوعَلَى اَلِ مُحَمّدٍ كَمَابَارَكْتَ عَلَى اِبْرَاهِيْمَ وَعَلَى اَلِ اِبْرَاهِيْمَم اِنَّكَ حَمِيُد مَّجِيد ۔*

کوئی " رفو گری " کرے گا میری

کوئی " رفو گری " کرے گا میری 
بھروسہ کھا گیا ھے جگہ جگہ سے



یہ دور وہ ہے کہ بیٹھے رہو چراغ تلے

یہ دور وہ ہے کہ بیٹھے رہو چراغ تلے 
سبھی کو بزم میں دیکھو مگر دکھائی نہ دو 

خورشید رضوی..

ہمارے بعد بھی تم قہقہے لگاتے ہو

ہمارے بعد بھی تم قہقہے لگاتے ہو 
تمہارے بعد تو ہم بات بھی نہیں کرتے 

اُس کی آنکھوں کو غور سے دیکھو

اُس کی آنکھوں کو غور سے دیکھو 
مندروں میں چراغ جلتے ہیں 

بشیر بدّر

ہمیں تیری محبت مل گئ ہے

ہمیں تیری محبت مل گئ ہے ہمارے ہاتھ میں سارا جہاں ہے

سلیقے سے رد کیجئے

سلیقے سے رد کیجئے 
چاھے بے حد کیجئے

ﻭﮦ ﻟﻤﺤﮯ ﮐﺘﻨﮯ ﺩﺭﻭﻍ ﮔﻮ ﺗﮭﮯ

ﻭﮦ ﻟﻤﺤﮯ ﮐﺘﻨﮯ ﺩﺭﻭﻍ ﮔﻮ ﺗﮭﮯ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﭘﻮﺭﻭﮞ ﮐﺎ ﻟﻤﺲ ﺍﺏ ﺗﮏ
ﻣﺮﯼ ﮐﻒِ ﺩﺳﺖ ﭘﺮ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ
ﻭﮦ ﻟﻤﺤﮯ ﮐﺘﻨﮯ ﺩﺭﻭﻍ ﮔﻮ ﺗﮭﮯ
ﻭﮦ ﮐﮩﮧ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ
ﮐﮧ ﺍﺏ ﮐﮯ ﺟﻮ ﮨﺎﺗﮫ ﺗﯿﺮﮮ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﭼﮭﻮ
ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﺗﻤﺎﻡ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﺳﮯ
ﻣﻌﺘﺒﺮ ﮨﯿﮟ
ﻭﮦ ﮐﮩﮧ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﭘﻮﺭﯾﮟ ﺟﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮐﻮ
ﭼﮭﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ
ﻭﮨﯽ ﺗﻮ ﻗﺴﻤﺖ ﺗﺮﺍﺵ ﮨﯿﮟ
ﺗﻮ ﺍﺏ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﻮ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﺖ ﻟﮕﺎﻧﺎ
ﻣﯿﮟ ﺍُﺱ ﺳﻤﮯ ﺳﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ
ﺗﻤﺎﻡ ﻧﺎ ﻣﮩﺮﺑﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﻣﮩﺮﺑﺎﻥ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ
ﺩﺳﺖ ﮐﺶ ﯾﻮﮞ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﺟﯿﺴﮯ
ﯾﮧ ﻣﭩﮭﯿﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮭﻮﻝ ﺩﯾﮟ ﺗﻮ
ﻭﮦ ﺳﺎﺭﯼ ﺳﭽﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﻮﺗﯽ
ﻣﺴﺮﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺟﮕﻨﻮ
ﺟﻮ ﺑﮯ ﯾﻘﯿﻨﯽ ﮐﮯ ﺟﻨﮕﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﯽ ﻟﮑﯿﺮ ﮐﺎ ﻗﺎﻓﻠﮧ ﺑﻨﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﯿﺮﮮ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺭﻭﭨﮫ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ
ﻣﯿﮟ ﺿﺒﻂ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺣﺼﺎﺭ ﻣﯿﮟ
ﻣﺪﺗﻮﮞ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ
ﻣﮕﺮ ﺟﺐ ﺍﮎ ﺷﺎﻡ
ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﭘﺖ ﺟﮭﮍ ﮐﯽ ﺁﺧﺮﯼ ﺷﺎﻡ ﺗﮭﯽ
ﮨﻮﺍ ﺍﭘﻨﺎ ﺁﺧﺮﯼ ﮔﯿﺖ ﮔﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ
ﻣﺮﮮ ﺑﺪﻥ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﺍ ﻟﮩﻮ ﺧﺸﮏ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ
ﺗﻮ ﻣﭩﮭﯿﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮭﻮﻝ ﺩﯾﮟ
ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ
ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﮐﻮﺋﯽ ﺟﮕﻨﻮ
ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﻮﺗﯽ
ﮨﺘﮭﯿﻠﯿﻮﮞ ﭘﺮ ﻓﻘﻂ ﻣﺮﯼ ﻧﺎﻣﺮﺍﺩ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ
ﺩﮬﺮﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ
ﻗﺴﻤﺖ ﮐﯽ ﺳﺐ ﻟﮑﯿﺮﯾﮟ ﻣﭩﯽ ﮨﻮﺋﯽ
ﺗﮭﯿﮟ۔

مگر یہ دل کہ بضد ہے، “نہیں نہیں کوئی ہے“

یہی بہت ہے کہ محفل میں ہم نشِیں کوئی ہے،
کہ شب ڈھلے تو سحر تک کوئی نہیں کوئی ہے،
نہ کوئی چاپ، نہ سایہ کوئی، نہ سرگوشی،
مگر یہ دل کہ بضد ہے، “نہیں نہیں کوئی ہے“
یہ ہم کہ راندۂ افلاک تھے، کہاں جاتے؟
یہی بہت ہے کہ پاؤں تلے زمِیں کوئی ہے،
ہر اِک زبان پہ اپنے لہُو کے ذائقے ہیں،
نہ کوئی زہرِ ہلاہل، نہ انگبِیں کوئی ہے،
بھلا لگا ہے ہمیں عاشقوں کا پہناوا،
نہ کوئی جیب سلامت، نہ آستِیں کوئی ہے،
دیارِ دل کا مسافر کہاں سے آیا ہے؟
خبر نہیں مگر اِک شخص بہترِیں کوئی ہے،
یہ ہست و بود، یہ بود و نبود، وہم ہے سب،
جہاں جہاں بھی کوئی تھا، وہیں وہیں کوئی ہے،
فرازؔ اتنی بھی ویراں نہیں میری دُنیا،
خزاں میں بھی گُل خنداں کہیں کہیں کوئی ہے،

(احمد فرازؔ)

نہ کوئی چاپ، نہ سایہ کوئی، نہ سرگوشی​


نہ کوئی چاپ، نہ سایہ کوئی، نہ سرگوشی​
مگر یہ دل کہ بضد ہے، “نہیں نہیں کوئی ہے“​
احمد فراز

Nov 27, 2017

ﺍﺭﺍﺩﮦ ﺭﻭﺯ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ،ﻣﮕﺮ ﮐﭽﮫ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ

ﺍﺭﺍﺩﮦ ﺭﻭﺯ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ،ﻣﮕﺮ ﮐﭽﮫ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ
ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺸﮧ ﻭﺭ ﻓﺮﯾﺒﯽ ﮨﻮﮞ ، ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ
ﺑُﺮﮮ ﮨﻮ ﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﭼﮭﮯ ﮨﻮ ،ﻣﺠﮭﮯ ﺍِﺱ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻄﻠﺏ
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻄﻠﺐ ﺳﮯ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ ،ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻟﮍ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ
ﯾﮩﺎﮞ ﮨﺮ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﺍﻧﺴﺎﮞ ﺧُﺪﺍ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﮨﮯ
ﺧُﺪﺍ ﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﮐﮧ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﮨﯽﺟﮭﻮﻟﯽ ﺑﮭﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ .
ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺻﺎﻑ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﻮﮞﻣﺠﮭﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺍُﻟﻔﺖ
ﻓﻘﻂ ﻟﻔﻈﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﭘﮧ ﻣﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ
ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﻣﺴﺎﻓﺖ ﻧﮯ ﺑﮩﺖ ﺯﺧﻤﯽ ﮐﯿﺎ ﻣﺠﮫﮐ۰
ﺍﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﺯﺧﻢ ﺑﮭﺮﻧﮯ ﮨﯿﮟ،ﻣﯿﮟ ﺁﮨﯿﮟ ﺑﮭﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ
ﺑﮭﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﺎﮨﺎ، ﻣﮕﺮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺗﻮ ﭼﺎﮨﺎ ﮨﮯ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﯾﺎﺩ ﮐﻮ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺗﻮ ﺑﺎﮨﺮ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ
ﻧﺠﺎﻧﮯ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﺁﺩﻣﯽﺳﮯ ﺧﻮﻑ ﮐﮭﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﺟﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﺳﮯ ﮈﺭﺗﺎ ﮨﻮ ﮐﺴﯽﺳﮯ ﮈﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ
ﺍﺭﮮ ﺍﻭ ﻋﺸﻖ ! ﭼﻞ ﺟﺎ ﮐﺎﻡ ﮐﺮ ﮐﺲ ﮐﻮ ﺑﻼﺗﺎ ﮨﮯ
ﺣُﺴﻦ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﺑِﮑﺘﺎ ﮨﮯﺳُﻮﻟﯽ ﭼﮍ ﮪ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ
ﯾﮩﺎﮞ ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﺍﻟﮓ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﻟﮑﮭﯽ ﮨﮯ
ﻣﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﺴﻮ ﮨﯿﮟ۰۰۰ﺍﺑﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﭘﮍﮪ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ
ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺭﺍﺕ ﮐﯽ ﺯُﻟﻔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﭼﺎﻧﺪﯼ ﺳﺠﺎﺗﺎﮨﻭﮞ
ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﮓ ﻣﯿﮟﻭﻋﺪﻭﮞ ﮐﮯ ﮨﯿﺮﮮ ﺟﮍ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ
ﺑﮭﻠﮯ ﺟﮭﻮﭨﺎ، ﻣﻨﺎﻓﻖ ﮨﻮﮞ،ﺑﮩﺖ ﺩﮬﻮﮐﮯ ﺩﯾﮯ ﻟﯿﮑﻦ
ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﺻﺪﺍ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ،ﻣﯿﮟ ﺩﮬﻮﮐﮧ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ
ﻣﯿﮟ ﺍُﺱ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﻣﻘﯿﻤﯽ ﮨﻮﮞﺟﺴﮯ ﺍﻭﻗﺎﺕ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽﺣﺪ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞﺳﻮ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮪ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ
ﺍﺑﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﺷﻌﺮ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟﻣﮕﺮ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﺮ ﮔﺰ
ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﻻﺝ ﺭﮐﮭﻨﯽ ﮨﮯ، ﺳﻮ ﻇﺎﮨﺮ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ !
جون ایلیا۔

سُنا ہے عشقِ کامل کا نقش

سُنا ہے عشقِ کامل کا
نقش گہرا ہوتا ہے
سنا ہے احساس کی چلمن پر
سخت پہرا ہوتا ہے
سنا ہے دل کی بستی میں
بس اک موسم ٹھرا ہوتا ہے
سنا ہے رات کے جگنو بھی
تارے دکھائی دیتے ہیں
سنا ہے دل کو لگ جاتا ہے قفس
بس اک شخص کا پہرا ہوتا ہے
سنا ہے عشقِ کامل کا
نقش گہرا ہوتا ہے
سنا ہے لوگ اس میں غم بھی سنبھل لیتے ہیں
سنا ہے تڑپ کر بھی اسی کا نام لیتے ہیں
سنا ہے بے خود ان کو مے کر نہیں پاتی
سنا ہے عشق کا در جو دل تھام لیتے ہیں
سنا ہے جو ہستی کردے فنا عشق میں
سنا ہے بندگی کا سر اسی کے سہرا ہوتا ہے
سنا ہے ڈوبنے والوں کا اس میں
رنگ سُنہرا ہوتا ہے
سنا ہے لاکھ چہروں میں بھی
مطلوب اِک چہرا ہوتا ہے
سنا ہے عشق کامل کا
نقش گہرا ہوتا ہے..

جب کبھی تیرا نام لیتے ہیں

جب کبھی تیرا نام لیتے ہیں 
دل سے ہم انتقام لیتے ہیں 
میری بربادیوں کے افسانے 
میرے یاروں کا نام لیتے ہیں 
بس یہی ایک جرم ہے اپنا 
ہم محبت سے کام لیتے ہیں 
ہر قدم پر گرے ہیں پر سیکھا 
کیسے گرتوں کو تھام لیتے ہیں 
ہم بھٹک کر جنوں کی راہوں میں 
عقل سے انتقام لیتے ہیں