Dec 4, 2017

جہاں پر تم نے چھوڑا تھا

جہاں پر تم نے چھوڑا تھا
وہیں موجود ہوں شاید بہت محدود ہوں
دیکھو ابھی تک کچھ نہیں بدلا
مِرے بستر پہ وہ ہی رات تکیے سے لپٹ کر رو رہی ہے
جس کا ہم نےـوصل کی شب نام رکھا تھا
مرے کمرے کی اک دیوار پہ تصویر میں وہ شام کامنظر
تمہاری یاد میں ڈوبا ہی رہتاہے
اذیت سے بھرا اک دکھ
ابھی تک میز پر رکھے ہوئے کاغذ کے ٹکڑے پر پڑا ہے
جو محبت کے کسی بھی آخری جملے میں ہوتا ہے
محبت اور نفرت کا ہر اک لمحہ مرے سینے میں رکھا ہے
نہ جانے جرم کیا ہے اور کیسی قید ہے جس میں
میں اپنے جسم کا ہر ایک حصہ قید پاتا ہوں
چلوں توپائوں میں وعدوں کی زنجیریں کھنکتی ہیں
کہیں بھی جا نہیں سکتا
ابھی تک کچھ نہیں بدلا
جہاں پر تم نے چھوڑا تھا
وہیں موجود ہوں شاید بہت محدود ہوں

No comments:

Post a Comment